خدا کے لئے بس کرو!
تحریر: ندیم حسین النیلوی،فاطمہ مردان
ایک بادشاہ نے وزیر سے ایک ایسے قصہ گو شخص کی فرمائش کی جو مسلسل قصہ سنانے میں مہارت رکھتا ہو، جو اسے ایسا قصہ سنائے جو کبھی ختم ہونے والا نہ ہو۔اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ شرط پر نہ اترنے والے قصہ گو کو گرفتار کیا جائے گا۔حسب فرمائش وزیر نے ایک ایسا قصہ خواں بادشاہ کے دربار میں پیش کیا جس نے وزیر کو مطمئن کیا تھا کہ بادشاہ کو ایسا قصہ سناؤں گا جس کا خاتمہ نباشد۔ خیر! بحکم سرکار قصہ خواں نے اپنا کام شروع کیا، تین دن میں اس کی کہانی اختتام کو پہنچی ، بادشاہ سلامت نے آگے سنانے کی فرمائش کی۔ قصہ خواں نے عاجزی کا اظہار کیا۔ بادشاہ سلامت آپے سے باہر ہوگیا اور قصہ خواں کے گرفتاری کا شاہی حکم جاری فرمایا۔ وزیر دوسرے قصہ گو کے تلاش میں در بدر پھر رہا تھا آخر کار ایک قصہ گو راضی ہوگیا اور شاہی دربار میں پیش ہوا۔ بادشاہ سلامت جلال میں تھے گرج دار آواز کے ساتھ قصہ گو سے کہا کہ میرے شرط کے بارے میں علم ہے، جی ہاں! منظور ہے قصہ گو نے آدابِ شاہی بجا لاتے ہوئے کہا۔خیر! اس نے بھی قصہ شروع کیا، لیکن دنیا میں ایسی کہانی ہی کہاں ہے جو خاتمہ پر مشتمل نہ ہو، سات دن تک قصہ سناتے ہوئے آخر کار یہ بھی زندان میں چلا گیا۔اس بار وزیر کو بھی خبردار کیا گیا کہ اگلی بار ایسا قصہ خواں لایا تو آپ بھی جیل میں جائیں گے۔ وزیر پسینہ سے شراب ور شاہی دربار سے نکلا خود کو بچانے کی عرض سے اس بار ایسے قصہ گو لانے کا فیصلہ کیا جسے دھمکی کے ساتھ وزارت کی آفر بھی کیا کہ اگر آپ بادشاہ کے فرمائش پر پورا اترے تو تمہیں وزیر بنائیں گے۔ وزارت کی لالچ دے کر شاہی دربار میں لے آیا۔ خیر! اس نے بھی آخر وزارت دینے کی بات سنی تھی اس لئے چال بازی سے کام لیتے ہوئے اس نے آدابِ شاہی بجا لاتے ہوئے قصہ سنانا شروع کیاکہ:"بادشاہ سلامت!قصہ یہ ہے کہ ایک دن ایک زمین دار نے اپنے کھیت میں گندم بونے کا ارادہ کیا اس واسطے اس نے کام شروع کیا شام تک آدھے کھیت میں گندم بوئے ، صبح کھیت کو آیا تو جتنے دانے بوئے تھے وہ سب ندارد! حیران و پریشان ہو کر پھر گندم کے دانے کھیت میں ڈال دیے، شام کو گھر لوٹ آیا، صبح سویرے کھیت میں حاضر ہو کر پھر کھیت میں کوئی دانہ نہ پایا، اس جستجو میں وہ کھیت کے چاروں اطراف کا جائزہ لے رہے تھے کہ اچانک اس کی نظر ایک درخت پر پڑ گئی جس میں بہت سے چھڑیاں جمع ہوچکی تھیں۔ اسے معلوم ہوا کہ یہ تخم چھڑیوں کے کھانے کی وجہ سے غائب ہوجاتی ہے، اس نے پھر دانے ڈال دیے ، شام کو تھکا ہوا تھا گھر جانے کا ارادہ کیا، صبح اٹھ کر پھر کھیت کی طرف رخ کیا پہنچنے پر معلوم ہوا کہ چھڑیوں نے کھیت صاف کیا ہے، زمین دار مشتعل ہوگیا لیکن کیا کرتا پھر تخم بکھرنے کا ارادہ کیا، دانے ڈالنے کے بعد گھر پہنچا، صبح جیسے ہی کھیت پر نظر پڑی وہ حسب سابق چھڑیوں نے صاف کیا تھا۔ قصہ گو اس طرح قصہ سناتے ہوئے سات دن مکمل کرگئے۔ بادشاہ سلامت غصہ سے بے قابو ہو کر قصہ گو پر پھٹ پڑا کہ میرا مطالبہ ہے کہ ایسا قصہ سناؤ جو کبھی ختم ہونے والا نہ ہو، اور آپ ایسی ویسی باتیں دہرا رہے ہیں۔ قصہ گو نے جھک کر کہا" بادشاہ سلامت! اصل قصہ تو ابھی باقی ہے"۔بادشاہ نے سکھ کا سانس لیا اور قصہ سنانے کی فرمائش کی ، قصہ گو نے پھر وہی بات دہرائی کہ گندم کے دانے ڈالے اور چھڑیوں نے کھالئے۔ بادشاہ قصہ گو سے مایوس ہوکر کہنے لگا:" خدا کے لئے بس کرو"۔ہمیں ایسے قصوں کی ضرورت نہیں۔رمضان المبارک کے مہینہ میں شاید ہمارے علاقے میں کوئی ایسا مسجد نہ ہو جس میں تراویح میں ختم القرآن کا اہتمام نہ ہو، عوام الناس سچ جذبے کے ساتھ اس میں شریک ہوتے ہیں، روزانہ 2 پونے 2 پارے پڑھنے کا رواج ہے، چودھویں یا پندرویں رات کو ختم القرآن ہوتا ہے جس میں ہر محلے والے اپنے بس کے مطابق پروگرام کرتے ہیں اور اس موقع پر باہر سے ایک عالم دین کو بلا کر مہمان خصوصی کے طور پر اسٹیج یا منبر پر جلوہ افروز ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔میں اس کا حامی ہوں ایک اچھی بات ہے، لیکن باہر سے تشریف لانے والے عالم دین کی ذمہ داری کیا ہے؟ اور یہ کہ محلہ کے پیش امام عام دنوں میں کیا بیان کرتے ہیں؟ پیش امام کو ہم ایک طرف پر رکھ دیں گے وہ جانے اس کی مقتدی جانے ، اس کی علمیت کیا ہے قرآن و حدیث سے واسطہ کیاہے، اس کو ہم تھوڑی دیر کے لئے ہولڈ کرتے ہیں۔ بات کرتے ہیں باہر سے تشریف لانے والے عالم دین کا، کیا اس کا یہی ذمہ داری کہ دورجدید میں اور خاص کر ختم القرآن کے موقع پر ایسے من گھڑت قصے سنائے کہ اگر یہ قصے گھڑنے والا آدمی دورجدید میں ہوتا تو وہ بھی اپنے اس گھڑے ہوئے قصےسے انکار کرتے اور اس کو کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتے، حجروں میں بھی تقاریر ہوتے رہتے ہیں اس میں مقرر جو چاہے بیان کردیتا ہے، چاہے من گھڑت قصے ہو یا کوئی اور شرک پر مشتمل کلمات،لیکن ہمیں گلہ ان حضرات سے ہیں جن کو خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے، عوام الناس بے چینی سے اس کا انتظار کرتے ہیں، ہر طرف سے لوگ جمع ہوجاتے ہیں کہ بھئی! ایک بڑا عالم دین تشریف لارہے ہیں، وہ عالم دین جب اس علاقہ میں قدم رکھتا ہے ، تو لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لے جاتے ہیں اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ بھئی ! اصلی علماء تو یہی ہیں۔ لیکن چند ہی منٹوں میں وہ منبر پر جلوہ افروز ہوکر لوگوں کے ارمانوں پر پانی پھیرلیتا ہے اور دھڑادھڑ وہ واقعات بیان کرتا ہے کہ اس کو خود بھی اس کا ماخذ معلوم نہیں ہوتا، (سلف صالحین کا دستور تھا کہ وہ قصاص (قصہ گو ) کو مسجد سے نکالتے تھے، صحیح مسلم کے مقدمہ میں جا بجا منقول ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان قصہ گو لوگوں نے پہنچایا شاید کسی اور نے اتنا نہیں پہنچایا)۔میں ان حضرات کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ ایسے مواقع پر قرآن کریم کی آیت اور صحیح حدیث کے سواء تمام قصص سے اجتناب کریں، کیونکہ جن لوگوں نے یہ قصے گھڑے ہیں آپ کے اور ان کے مخاطبین میں بڑا فرق ہے، ان کے مخاطب ایسے لوگ تھے جو الف ب نہیں جانتےتھے بس قصوں کہانیوں کے طلب میں چلتے پھرتے تھے،جب کہ آپ کا مخاطب ایسے لوگ ہیں جو انجینئرز، ڈاکٹرز، لیکچررز، پروفیسرز وکلاء وغیرہ پر مشتمل ہیں ۔ اگر آپ کو واقعات سنانے کا چسکہ ہے تو آپ کے لئے اور بھی صحیح طرق موجود ہیں، قرآن و حدیث بھی عبرتناک واقعات پر مشتمل ہیں، آپ اس کو بیان کرکے اپنا شوق بخوشی پورا کرسکتے ہیں۔ آپ کے ایسے من گھڑت قصے سن کر مجھے دوران خطاب ڈر لگتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ عوام الناس تنگ آکر بادشاہ سلامت کی طرح خود ہی کہیں کہ مولوی صاحب! "خدا کے لئے بس کرو"۔ ہمیں ایسے تقریر کی کوئی ضرورت نہیں۔
نوٹ: ادبی باریکیوں سے قطع نظر صرف نفس مضمون پر نظر رکھیں۔ شکریہ
0 comments: