Sunday, April 7, 2019

عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ


پہلا حصہ:

تاریخ کےاوراق میں بادشاہوں کے عروج و زوال کی داستانیں موجود ہیں۔ کوئی برائی، جبر وستم کے ساتھ متصف ہوتے نظر آرہے ہیں ، تو کوئی فارسائی ، فقر و قناعت کے ساتھ موصوف ہوتے ہیں۔فریق اول کو ان کے ناکاریوں کی وجہ سے نظیرِظلم وستم میں پیش کیا جاتا ہے ، تو فریق ثانی کو ان کے کارناموں کی وجہ سے اغیار بھی نظامِ حکومت و عدل میں بطورِ آئیڈیل پیش کرتے ہیں۔انہیں فریق ثانی میں ایک چمکتا ہوا ستارہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی پیش پیش ہے۔بنوامیہ کا دورِخلافت چل رہا تھا، مسلمان حیران و پریشان تھے ، ہر طرف بے چینی پھیل چکی تھی ، اپنے اکابر کے طرز سے ہٹ کر ولید نے شام کو، حجاج نے عراق کو، عثمان بن حیان نے حجاز کو جب کہ قرۃ بن شریک نے مصر کو ظلم و ستم کا شکار کیا تھا،ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کا رحمت جوش میں آکر مسلمانوں کو ایک ہمدرد عمر بن عبدالعزیزؒ کے نام سے مل گیا۔یہ وہ ہستی ہے جو 99ھ میں خلافت کے میدان میں نمودار ہوئے اور 101ھ میں لوگوں کے لیے مثال بن کر رخصت ہوگئے۔دو سالہ دور میں روئے زمین کو عدل سے لبریز جب کہ ظلم سے پاک کرکے ایک سنۃ حسنہ قائم کیا۔ آپ کی خلافت سلیمان کے بعد شروع ہوئی ، سلیمان کا جنازہ پڑھ کر لوٹ رہے تھے ، تو اتنا غمگین تھا کہ لوگ اسے دیکھ کر مغموم ہوتے بغیر نہیں رہ جاتے۔ عمر بن ذر نے محسوس کرکے عرض کیا کہ میں آپ کو غمگین دیکھ رہا ہوں، کیا وجہ ہے ؟ عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا:" میں جس حالت میں ہوں اس میں غمگین ہی ہونا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ امت کے ہر فرد کو اس کا حق پہنچادوں ، وہ بھی ایسا نہیں کہ وہ مجھے خط لکھ کر اپنا حق طلب کریں ، بلکہ مجھے خود ان سب کو حق پہنچانا ہے"۔ جب خلیفہ ہوئے تو قوم سے پہلی خطاب میں حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا:اے لوگوں! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعد کوئی کتاب نہیں ، اور نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں۔ اور یاد رکھیں! میں قاضی یا بادشاہ نہیں ہوں ، بلکہ صرف کتاب و سنت کا منفذ ہوں ، اور نہ میں کوئی نیا حکم ایجاد کرنے والا ہوں ، بلکہ کتاب و سنت کا متبع ہوں۔ میں آپ لوگوں سے ممتاز نہیں ہوں، ہاں! اتنی بات ہے کہ آپ سب کے بنسبت مجھ پر بوجھ زیادہ ہے۔ وہ آدمی جو ظالم بادشاہ سے بھاگتا ہے وہ ظالم نہیں ہے، اور یاد رکھیں! اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔خلافت سنبھالتے ہی اپنی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے کہنے لگا-جس کے پاس کچھ نایاب جواہرات تھے، جو کہ اس کے باپ عبدالملک نے اس کو دیے تھے- "دو باتوں میں سے ایک اختیار کرو ، یا تو یہ جواہرات بیت المال میں جمع کرو یا مجھے فراق و جدائی کی اجازت دے دو ، کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میں ، آپ اور یہ جواہرات ایک گھر میں رہے۔آخر وہ بھی عمر بن عبدالعزیزؒ کی بیوی تھی، کہنے لگی :"اگر اس کے دس گنا زیادہ جواہرات بھی ہوتے تو وہ سب آپ پر قربان"۔ اپنے بیوی کے قیمتی جواہرات مسلمانوں کے بیت المال میں رکھ کر عمر بن عبدالعزیزؒ کو سکون مل گیا۔
علامہ سیوطیؒ کے "تاریخ الخلفاء " کے مطابق جب عمر بن عبدالعزیزؒ فوت ہوگئے اور یزید بن عبدالملک خلافت میں آئے ، تو اس نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے کہلا بھیجا: " اگر آپ چاہتی ہو کہ آپ کے قیمتی جواہرات واپس کردی جائے ، تو میں آپ کو واپس بھیج دوں گا"۔ فاطمہ کہنے لگی :" قسم بخدا! میں نے عمر بن عبدالعزیز کے زندگی میں اس قیمتی جواہرات کے ساتھ عیش و عشرت قبول نہیں کیا تو اس کے وفات کے بعد کیسے قبول کروں گی "؟۔چنانچہ زندگی میں کبھی اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
نیوپوائنٹ

0 comments: