رمضان المبارک کے فضائل و مسائل تفصیل کے ساتھ:
رمضان المبارک کے فضائل و مسائل
رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی رحمتوں، عنایات اور کرم نوازیوں کی عجیب شان ہوتی ہے۔ انہی برکات کا یہ ثمرہ ہے کہ اس میں ایک نفل کاثواب فرض کے برابر اورایک فرض کاثواب ستر فرائض کے برابرکردیاجاتاہے۔
(مشکوۃ المصابیح: ج1، ص173 کتاب الصوم- الفصل الاول)
اس مہینہ میں عبادات و ریاضات کا عالم کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث پر نظر ڈالیے، فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ، ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتّٰى يَنْسَلِخَ •
(شعب الایمان للبیہقی: ج3ص310فضائل شہر رمضان)
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کمر ِہمت کس لیتے اوراپنے بستر پرتشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔
لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِى الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِى غَيْرِهَا•
(صحیح مسلم: ج1، ص372، باب الاجتہاد فی العشر الاواخر الخ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔
بلکہ رمضان کی آمد سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تیاری اور اس میں بھرپور محنت کرنے کے لیے ایک خطبہ بھی ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شعبان کی آخر تاریخ میں ہمیں وعظ فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ شَهْرٌ مُبَارَكٌ شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ جَعَلَ اللّهُ صِيَامَهُ فَرِیْضَۃً وَ قِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّىٰ فَرِيضَةً فِیْمَا سِوَاهُ وَمَنْ أَدَّىٰ فِيهِ فَرِيضَةً كَانَ كَمَنْ أَدَّىٰ سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِیْمَا سِوَاهُ وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ وَ شَهْرُ الْمُوَاسَاةِ وَ شَهْرٌ يُزْدَادُ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَ عِتْقَ رَقَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ وَ كَانَ لَهٗ مِثْلُ أَجْرِهٖ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُّنْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهٖ شَيْءٌ قَالُوْا: لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ فَقَالَ: يُعْطِي اللّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰى تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللّهُ لَہُ وَ أَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ وَ اسْتَكْثِرُوْا فِيْهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ : خَصْلَتَيْنِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ وَ خَصْلَتَيْنِ لَا غِنىٰ بِكُمْ عَنْهُمَا فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ فَشَهَادَةُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ وَ تَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ أَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنىٰ بِكُمْ عَنْهُمَا فَتَسْأَلُوْنَ اللهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُوْنَ بِهِ مِنَ النَّارِ وَمَنْ أَشْبَعَ فِیْہِ صَائِمًا سَقَاهُ اللّهُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتّٰى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ•
(صحیح ابن خزیمۃ:ج2 ص911 باب فضائل شہر رمضان- رقم الحدیث1887)
ترجمہ: ” تم پر ایک مہینہ آ رہا ہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نیکی کر کے اﷲ کا قرب حاصل کرے گا ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر ا س روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائیگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ( یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تواللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے رب تعالیٰ شانہ ( روزِ قیامت) میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔“
رمضان المبارک کی عبادات کی فضیلت اور مسائل کا جاننا ضروری ہے تاکہ انسان اس مہینہ میں عبادات کو بطریقِ احسن ادا کر کے خدا تعالیٰ کے ہاں سرخرور ہو سکے۔
رمضان و روزہ کے فضائل
1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُعْطِيَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَهَا أُمَّةٌ قَبْلَهُمْ خُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُفْطِرُوا وَيُزَيِّنُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ كُلَّ يَوْمٍ جَنَّتَهُ ثُمَّ يَقُولُ يُوشِكُ عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمْ الْمَئُونَةَ وَالْأَذَىٰ وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ وَيُصَفَّدُ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ فَلَا يَخْلُصُوا إِلٰى مَا كَانُوا يَخْلُصُونَ إِلَيْهِ فِي غَيْرِهِ وَيُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ لَا وَلٰكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفّٰى أَجْرَهُ إِذَا قَضٰى عَمَلَهُ•
(مسند احمد: ج8 ص30 رقم الحدیث7904)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں:
(۱)ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۲)ان کیلئے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔
(۳)جنت ہر روز ان کیلئے سجا دی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔
(۴) اس مہینہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔
(۵)رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:کیایہ شب قدرہے؟ ارشادفرمایا: نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم ہونے کے وقت دی جاتی ہے۔
2: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ رَخَّصَهَا اللّهُ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صِيَامُ الدَّهْرِ•
(مسند احمد: ج9 ص346، رقم الحدیث9870)
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن رمضان کا روزہ چھوڑ دے اور پھر تمام عمر کے روزے بھی رکھے تو اس ایک روزے کا بدل نہیں ہو سکتا۔
3: قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا•
(سنن النسائی: ج1 ص311باب فضل الصیام)
ترجمہ: حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: روزہ انسان کے لئے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔
فائدہ: ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزہ سے بھی اپنے دشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے اور روزہ پھاڑ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ، غیبت اور اس قسم کے ناجائز کام کیے جائیں۔ لہذا روزہ کے حقیقی فوائد اور ثمرات اس وقت حاصل ہوں گے جب انسان ان گناہ کی چیزوں اور لایعنی کاموں سے بچا رہے۔
4: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ لَا يُرَدُّ دُعَاؤُهُمْ؛ اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّائِمُ حَتّٰى يُفْطِرَ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكَ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ•
(مسند احمد بن حنبل: ج9 ص298 رقم الحدیث9703)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی؛ ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم انسان کی جس کواللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ (اے بندے!) میں تیری ضرور مدد کروں گا ، گو (کسی مصلحت کی وجہ سے) کچھ دیر ہو جائے۔
5: عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اُحْضُرُوا الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقٰى دَرَجَةً قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ مِنَ الْمِنْبَرِ قَالَ: فَقُلْنَا لَهٗ يَا رَسُولَ اللهِ لَقَدْ سَمِعْنَا الْيَوْمَ مِنْكَ شَيْئًا لَمْ نَكُنْ نَسْمَعُهُ قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَرْضَ لِي فَقَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَقُلْتُ: آمِينَ فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّانِيَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ فَقُلْتُ: آمِينَ، فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّالِثَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدَهُمَا، فلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ - أَظُنُّهُ قَالَ- فَقُلْتُ: آمِينَ•
(شعب الایمان للبیہقی: ج2 ص214باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ و سلم الخ)
ترجمہ: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جاؤ۔ ہم لوگ (قریب قریب) حاضر ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر کے پہلے زینہ پر قدم رکھا تو فرمایا :آمین۔جب دوسرے زینہ پر قدم رکھا توپھر فرمایا: آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا توپھر فرمایا: آمین۔ جب آپ علیہ السلام خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جبرئیل میرے پاس آئے تھے۔ جب میں نے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی، میں نے کہا :آمین، پھر جب میں دوسرے زینے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا:آمین،جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے ا س کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حالت میں آئیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں،میں نے کہا:آمین۔
6: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ذَاكِرُ اللهِ فِيْ رَمَضَانَ یُغْفَرُ لهٗ وَسَائِلُ اللهِ فِیْہِ لَا يَخِيْبُ •
(شعب الایمان للبیہقی: ج3ص311فضائل شہر رمضان)
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا: ”رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔“
7: عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِىِّ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ •
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج4 ص240)
ترجمہ: حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔“
مسائل روزہ
مسئلہ: رمضان شریف کے روزے ہر مسلمان پر جو مجنون اور نابالغ نہ ہو فرض ہیں، جب تک کوئی عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہیں اور اگر کوئی روزہ کی نذر مان لے تو روزہ فرض ہو جاتاہے اور قضا اور کفارے کے روزے بھی فرض ہیں اوراس کے سوا اور سب روزے نفل ہیں، رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کوئی گناہ نہیں البتہ عیدین کے دن اور بقر عید سے بعد تین دن روزہ رکھناحرام ہے۔
مسئلہ: طلوعِ فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک روزے کی نیت سے کھانا اور پینا چھوڑ دیں اور خاوند و بیوی ہمبستر بھی نہ ہوں شریعت میں اس کو ’’روزہ‘‘ کہتے ہیں۔
مسئلہ: زبان سے نیت کرنا اور کچھ کہنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب دل میں یہ دھیان ہے کہ آج میرا روزہ ہے اورسارا دن کچھ کھایانہ پیا نہ ہمبسترہوا تو اس کا روزہ ہوگیا اور اگر کوئی زبان سے بھی کہہ دے کہ یا اللہ میں کل تیرا روزہ رکھوں گا یا عربی میں یہ کہہ دے کہ’’وبصوم غد نویت‘‘ تو بھی کچھ حرج نہیں، یہ بھی بہتر ہے۔
مسئلہ: اگر کسی نے دن بھر نہ تو کچھ کھایا نہ پیا صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہا لیکن دل میں روزہ کا ارادہ نہ تھا بلکہ بھوک نہیں لگی یا کسی اور وجہ سے کچھ کھانے پینے کی نوبت نہیں آئی تو اس کا روزہ نہیں ہوا۔ اگر دل میں روزہ کاارادہ کرلیتا تو روزہ ہوجاتا۔
مسئلہ: شریعت میں روزہ صبح صادق کے وقت سے شروع ہوتاہے۔ اس لیے جب تک صبح صادق نہ ہو کھانا پینا وغیرہ سب کچھ جائز ہے۔ بعض لوگ سحری کھاکر نیت کی دعا پڑھ کر لیٹے رہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب نیت کرلینے کے بعد کچھ کھانا پینا نہیں چاہیے، یہ خیال غلط ہے جب تک صبح صادق نہ ہو کھاپی سکتے ہیں چاہے نیت کرچکے ہوں یا ابھی تک نہ کی ہو۔
مسئلہ: رمضان شریف کے روزے میں بس اتنی نیت کرلینا کافی ہے کہ آج میرا روزہ ہے یا رات کو اتنا سوچ لے کہ کل میراروزہ ہے بس اتنی ہی نیت سے بھی رمضان کاروزہ اداہوجائے گا۔ اگر نیت میں خاص یہ بات نہ آئی ہوکہ رمضان کا روزہ ہے یا فرض روزہ ہے تب بھی روزہ ہوجائے گا۔
مسئلہ: شعبان کی انتیسویں تاریخ کو اگر رمضان شریف کا چاند نکل آئے تو صبح کو روزہ رکھیں اور اگر نہ نکلے یا آسمان پر بادل ہوں اور چاند نہ دکھائی دے تو صبح کو جب تک یہ شبہ رہے کہ رمضان شروع ہوا یا نہیں ،روزہ نہ رکھیں۔بلکہ شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کریں۔
مسئلہ: انتیسویں تاریخ کو(بادل یا گرد کی وجہ سے رمضان شریف کا چاند نہیں دکھائی دیا تو صبح کو نفلی روزہ بھی نہ رکھیں ہاں اگر ایسا اتفاق ہوجائے کہ ہمیشہ پیراور جمعرات یا کسی اور مقرر دن کا روزہ رکھتا تھا اور کل وہی دن ہے تو نفل کی نیت سے صبح کو روزہ رکھ لینابہتر ہے پھر اگر کہیں سے چاند کی خبر آگئی تو اسی نفل روزے سے رمضان کا فرض ادا ہوگیا اب اس کی قضانہ رکھیں۔
(منتخب از بہشتی زیور: ص117، 118 بتغیر یسیر)
جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
مسئلہ: اگرروزہ دار بھول کر کچھ کھا لے یا پی لے یا بھولے سے خاوند و بیوی ہمبستر ہوجائیں تو ان کا روزہ نہیں گیا۔اگر بھول کر پیٹ بھرکر بھی کھاپی لے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔اگر بھول کرکئی دفعہ کھاپی لیا تب بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
مسئلہ: ایک شخص کو بھول کر کچھ کھاتے پیتے دیکھاتواگروہ اس قدرطاقت ور ہے کہ روزہ سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی تو روزہ یاددلادینا واجب ہے اور اگر کوئی طاقت نہ رکھتا ہوکہ روزہ سے تکلیف ہوتی ہے تو اس کو یادنہ دلاوے ،کھانے دیوے۔
مسئلہ: حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا خود بخوددھواں چلا گیا یا گرد وغبار چلاگیا تو روزہ نہیں گیا البتہ اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتارہا۔
مسئلہ: لوبان (ایک قسم کی گوند جو آگ پر رکھنے سے خوشبو دیتا ہے )وغیرہ کوئی دھونی سلگائی پھر اس کو اپنے پاس رکھ کر سونگھا تو روزہ جاتارہا۔ اسی طرح حقہ پینے سے بھی روزہ جاتارہتاہے البتہ اس دھوئیں کے سوا عطر، کیوڑہ، گلاب کا پھول اورخوشبو سونگھنا جس میں دھواں نہ ہو درست ہے۔
مسئلہ: دانتوں میں گوشت کا ریشہ اٹکا ہواتھایا کوئی اور چیز تھی اس کو خلال سے نکال کرکھاگیا لیکن منہ سے باہر نہیں نکالا یا آپ ہی آپ حلق میں چلی گئی تو دیکھیں اگر چنے سے کم ہے تب تو روزہ نہیں گیا اور اگر چنے کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو جاتارہا، البتہ اگر منہ سے باہر نکال لیا تھا پھر اس کے بعد نگل گئی تو ہرحال میں روزہ ٹوٹ گیا چاہے وہ چیز چنے کے برابر ہویا اس سے بھی کم ہودونوں کاایک حکم ہے۔
مسئلہ: تھوک نگلنے سے روزہ نہیں جاتاچاہے جتنا ہو۔
مسئلہ: اگرپان کھا کر خوب کلی غرغرہ کرکے منہ صاف کرلیا لیکن تھوک کی سرخی نہیں گئی تواس کا کچھ حرج نہیں، روزہ ہوگیا۔
مسئلہ: ناک کو اتنے زورسے سُٹَرک لیاکہ حلق میں چلی گئی تو روزہ نہیں ٹوٹا اسی طرح منہ کی رال سُٹَرک کر نگل جانے سے روزہ نہیں جاتا۔(منتخب بہشتی زیور: ص117)
جن صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتاہے
مسئلہ: کلی کرتے وقت حلق میں پانی چلاگیا اور روزہ یادتھا توروزہ جاتارہاقضا واجب ہے کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ: آپ ہی قے ہوگئی تو روزہ نہیں گیا چاہے تھوڑی سی قے ہوئی یا زیادہ۔ البتہ اگر اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کے تھی تو روزہ جاتارہا اور اگر اس سے تھوڑی ہو تو خود کرنے سے بھی نہیں گیا۔
مسئلہ: تھوڑی سی قے آئی پھر آپ ہی آپ حلق میں لوٹ گئی تب بھی روزہ نہیں ٹوٹاالبتہ اگر قصداً لوٹالیاتو روزہ ٹوٹ جاتا۔
مسئلہ: کسی نے کنکری یا لوہے کا ٹکڑا وغیرہ کوئی ایسی چیز کھالی جس کو نہیں کھایاکرتے اور نہ اس کو کوئی بطور دواکے کھاتاہے تواس کا روزہ جاتارہا لیکن اس پرکفارہ واجب نہیں اور اگر ایسی چیز کھالی یا پی لی جس کو لوگ کھایاکرتے ہیں یاکوئی ایسی چیز ہے کہ یوں تونہیں کھاتے لیکن بطور دوا کے ضرورت کے وقت کھاتے ہیں تو بھی روزہ جاتارہااور قضا وکفارہ دونوں واجب ہیں۔
مسئلہ: روزے کے توڑنے سے کفارہ جب ہی لازم آتاہے جب کہ رمضان شریف میں روزہ توڑ ڈالے رمضان شریف کے سوا اور کسی روزے کے توڑنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا چاہے جس طرح توڑے اگرچہ وہ روزہ رمضان کی قضا ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ اگر اس روزہ کی نیت رات سے نہ کی ہو یا روزہ توڑنے کے بعد اسی دن حیض آگیا ہو تواس کے توڑنے سے کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ: منہ سے خون نکلتاہے اس کوتھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا البتہ اگر خون تھوک سے کم ہو اور خون کامزہ حلق میں معلوم نہ ہوتوروزہ نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ: اگر زبان سے کوئی چیز چکھ کر تھوک دی تو روزہ نہیں ٹوٹا لیکن خواہ مخواہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ ہاں! اگر کسی کا شوہر بڑا بدمزاج ہو اور یہ ڈرہوکہ ا گر سالن میں نمک وغیرہ درست نہ ہوا تو غصہ ہوگا،اس کو نمک چکھ لینا درست ہے اور مکروہ نہیں۔
مسئلہ: کسی چیز کو اپنے منہ سے چباکرچھوٹے بچے کو کھلانامکروہ ہے البتہ اگر اس کی ضرورت پڑے اورمجبوری وناچاری ہوجائے تو مکروہ نہیں۔
مسئلہ: کوئلہ چباکردانت مانجھنا اورمنجن (ٹوتھ پیسٹ )سے دانت مانجھنامکروہ ہے اور اگراس میں سے کچھ حلق میں اترجائے توروزہ جاتارہے گا اور مسواک سے دانت صاف کرنا درست ہے چاہے سوکھی مسواک ہو یا تازی، اسی وقت کی توڑی ہوئی اگر نیم کی مسواک ہے اور اس کا کڑوا پن منہ میں معلوم ہوتاہے تب بھی مکروہ نہیں۔
مسئلہ: کسی نے بھولے سے کچھ کھالیا اوریوں سمجھا کہ میراروزہ ٹوٹ گیا اس وجہ سے پھر قصدا ًکچھ کھالیاتواب روزہ جاتارہا فقط قضاواجب ہے، کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ: اگر کسی کو قے آگئی اور وہ یہ سمجھا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا اس گمان پر پھر قصداً کھا لیا اور روزہ توڑدیاتوبھی قضاواجب ہے کفارہ واجب نہیں۔
(منتخب از بہشتی زیور: ص117 تا 119 تیسرا حصہ)
تراویح کے فضائل
1: حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
شَهْرٌکَتَبَ اللّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَہٗ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ•
(سنن ابن ماجۃ: ص94، باب ما جاء فی قيام شهر رمضان)
ترجمہ: اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نےتم پر فرض فرمائے ہیں اور میں نے اس کے قیام (تراویح) کو تمہارے لیے سنت قرار دیا ہے۔
2: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ•
(صحیح البخاری: ج1،ص10، باب تطوع قیام رمضان من الایمان)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اورثواب کی نیت سے تروایح پڑھی تواس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
تراویح کے مسائل
تراویح بیس رکعت ہے:
1: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔
2: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ•
(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)
تر جمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں ایک رات تشریف لائے اورلوگوں کوچار(فرض)بیس رکعت(تراویح) اورتین وترپڑھائے۔
3: عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اَمَرَ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ اَنْ یُّصَلِّیَ بِاللَّیْلِ فِیْ رَمْضَانَ…… فَصَلّٰی بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً•
(مسند أحمد بن منيع بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصيري ج2 ص424 باب فی قيام رمضان)
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھاؤں…… تو میں نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی۔
4: عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ : كَانُوا يَقُومُونَ عَلٰى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينِ ، وَكَانُوا يَتَوَكَّؤنَ عَلَى عُصِيِّهِمْ فِى عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ•
(السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں(صحابہ کرام باجماعت)بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اورقاری صاحب سو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اورلوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں لاٹھیوں کاسہارالیتے۔
5: عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ•
(مسند الامام زیدص158)
ترجمہ: امام زیدرحمہ اللہ اپنے والد امام زین العابدین رحمہ اللہ سے وہ اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس امام کورمضان میں تراویح پڑھانے کاحکم دیا تھا اسے فرمایاکہ وہ لوگوں کوبیس رکعات پڑھائے، ہر دورکعت پر سلام پھیرے، ہرچاررکعت کے بعد آرام کا اتنا وقفہ دے کہ حاجت والافارغ ہوکر وضوکرلے اوریہ کہ سب سے آخر میں وتر پڑھائے۔
6: حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں:
کَانَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ یُصَلِّیْ بِنَا فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ فَیَنْصَرِفُ وَ عَلَیْہِ لَیْلٌ، قَالَ الْاَعْمَشُ:کَانَ یُصَلِّیْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ بِثَلَاثٍ• (قیام اللیل للمروزی ص157)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رمضان میں ہمیں تراویح پڑھاتے تھے اور گھر لوٹ جاتے توابھی رات باقی ہوتی تھی۔حدیث کےراوی امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وترپڑھتے تھے۔
7: ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اَجْمَعَ الصَّحَابَۃُ عَلٰی اَنَّ التَّرَاوِیْحَ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً•
(مرقاۃ المفاتیح: ج3ص346 باب قیام شہر رمضان- الفصل الثالث)
ترجمہ: تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعات ہے۔
8: محدث علامہ ابوزکریا یحیی بن شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اِعْلَمْ اَنَّ صَلَاۃَ التَّرَاوِیْحَ سُنَّۃٌ بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ وَھِیَ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً •
(کتاب الاذکارص226 باب اذکار صلاۃ التراویح)
ترجمہ: نماز تراویح باتفاق علماء سنت ہے اوریہ بیس رکعتیں ہیں۔
تراویح میں ختمِ قرآن:
1: عَنِ الْحَسَنِ قَالَ مَنْ اَمَّ النَّاسَ فِیْ رَمْضَانَ فَلْیَأْخُذْ بِھِمُ الْیُسْرَفَاِنْ کَانَ بَطِیْئَ الْقِرَاءَۃِ فَلْیَخْتِمِ الْقُرْآنَ خَتْمَۃً وَاِنْ کَانَ قِرَاءَۃً بَیْنَ ذٰلِکَ، فَخَتَمَۃً وَنِصْفاً وَاِنْ کَانَ سَرِیْعَ الْقِرَاءَۃِ فَمَرَّتَیْنِ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 5ص222 باب فی صلاۃ رمضان)
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان میں لوگوں کو نماز تراویح پڑھائے وہ ان سے آسانی کامعاملہ کرے۔ اگر اس کی قراءت آہستہ ہو توایک قرآن کریم کاختم کرے، قراءت کی رفتار درمیانی ہو تو ڈیڑھ اور اگرتیزقراءت کرسکتاہو توپھر دوبار قرآن کاختم کرے۔
2: قَالَ الْاِمَامُ الْفَقِیْہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَصْکَفِیُّ رَحِمَہُ اللّٰہِ :( وَالْخَتْمُ)مَرَّۃً سُنَّۃٌوَمَرَّتَیْنِ فَضِیْلَۃٌ وَثَلَاثًا اَفْضَلُ (وَلَایُتْرَکُ) الْخَتَمُ (لِکَسْلِ الْقَوْمِ) •
(الدرالمختار للحصکفی :ج2ص601 کتاب الصلاۃ، مبحث صلاۃ التراویح)
ترجمہ: امام محمد بن علی الحصکفی فرماتے ہیں:تروایح میں ایک بار قرآن مجید ختم کرنا سنت ، دوبار فضیلت اورتین بار افضل ہے، قوم کی سستی کی وجہ سے چھوڑا نہ جائے۔
3: اَلسُّنَۃُ فِی التَّرَاوِیْحِ اِنَّمَا ہُوَالْخَتْمُ مَرَّۃً فَلَایُتْرَکُ لِکَسْلِ الْقَوْمِ •
(فتاوی عالمگیر یہ ج1ص130 فصل فی التروایح)
ترجمہ: تروایح میں ایک بار ختم قرآن کرنا سنت ہے، لوگوں کی سستی کی وجہ سے ترک نہ کیاجائے۔
تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں:
1: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَهَانَا أَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنْ نَؤُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ•
(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص711باب ہل یؤم القرآن۔۔(
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر پڑھائیں۔
2: عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص89 باب من کرہہ [ای الامامۃ بالقراءۃ فی المصحف])
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اس بات کو نا پسند فرماتے تھے کہ آدمی امام بنے اور قرآن دیکھ کر پڑھائے۔
3: عَنْ إبْرَاهِيْمَ ، أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص88 باب من کرہہ [ای الامامۃ بالقراءۃ فی المصحف])
ترجمہ: مشہور فقیہ حضرت ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ قرآن دیکھ کر امامت کرانے کو ناپسند فرماتے تھے۔
نا بالغ کی امامت جائز نہیں:
1: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَهَانَا أَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنْ نَؤُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ ، وَنَهَانَا أَنْ يَّؤُمَّنَاإِلَّا الْمُحْتَلِمْ•
(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص711باب ہل یؤم القرآن فی المصحف)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر پڑھائیں اور ہمیں یہ حکم دیا کہ بالغ امامت کروائیں۔
2: عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: لَا يَؤُمُّ الْغُلَامُ حَتّٰى تَجِبَ عَلَيْهِ الْحُدُوْدُ•
(نیل الاوطار للشوکانی:ج3ص176 باب ما جاء فی امامۃ الصبی)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بچہ امامت نہ کرائے جب تک اس قابل نہ ہو جائے کہ اس پر حدود لگ سکیں (یعنی بالغ ہو جائے)۔
3: عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : لاَ يَؤُمُّ غُلاَمٌ حَتَّى يَحْتَلِمَ•
(مصنف ابن ابی شیبہ:ج3 ص207 باب فی امامۃ الغلام قبل ان یحتلم)
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچہ جب تک جوان نہ ہو جائے اس وقت تک امامت نہ کرائے۔
0 comments: