سکندر رومی:
سکندررومی اپنے کثرت فتوحات کی وجہ سے روئے زمین پر ایک بڑا نام رکھتے ہیں ۔ یہ مشرق و مغرب کے فاتح تھے ۔ لوگوں نے آپ سے سوال کیا : ”آپ نے مشرق و مغرب کے فتوحات کیسے اپنے نام کیے ، حالانکہ آپ سے پہلے بادشاہ آپ سے زیادہ خزانے ، ملک ، لشکر و عمر رکھتے تھے ، لیکن انہیں یہ فتوحات نصیب نہ ہوئے؟“۔ سکندر رومی نے کہا : ” اللہ کے فضل سے میں نے جس ملک کو بھی فتح کیا اس کے عوام کو نہیں ستایا ۔ گزرے بادشاہوں کے طرق خیرات کو عوام پر بند نہیں کیا ، اور گزشتہ بادشاہوں کا نام ہمیشہ بھلائی کے ساتھ لیا“۔
خیر! ہم اگر اپنے ادوار پر نظر ڈالیں تو ہمارے حکمرانوں نے کامیابی کے بعد کبھی عوام کو سکون نہیں پہنچایا ، سکون تو بڑی بات ہے ، عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ گزرے حکمرانوں کے اچھے منصوبوں کو کرپشن کے آڑ میں مسترد کرکے انہیں گھسیٹنا اپنا کامیابی سمجھتے ہیں ۔ اور اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے گزشتہ حکمرانوں کا تذکرہ ہمیشہ برائی سے کرتے ہیں ۔
میں نے اپنے زندگی میں پاکستانی حکمرانوں کے دو دور دیکھے ہیں اور تیسرے دور سے گزر رہا ہوں ۔ پہلے دور کے دو حکمرانوں میں ایک وصف تھا جو کہ موجودہ حکومت میں دور دور تک نظر نہیں آتا ، وہ یہ کہ جب بھی ملک میں کوئی سانحہ پیش آتا تو ان میں کچھ ایسے خواص ہوتے تھے جو عوام کے صف میں کھڑے ہوکر ان کے زخموں پر مرہم لگاتے ، ان کو تسلی دیتے ، ان کے بات کو سنتے ، لیکن فی الحال ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہمارے حکومت کے کابینہ میں کوئی بھی یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ عوام کے مزاج اور توقعات پر ترس کھا کر ان کے ستانے سے باز آجائے ۔ یہ بے شک مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم ثابت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ لیکن کوئی بات نہیں کیونکہ ہم سب ایک ایسے عدالت میں جمع ہونے والے ہیں جہاں ظالم ، ظالم اور مظلوم ، مظلوم ہی کے شکل میں پیش ہوں گے۔احکم الحاکمین فیصلہ فرمائے گا۔ فلایسئل عما یفعل!
0 comments: