افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء شروع
افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء شروع
افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء شروع
واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے اعلان کیے جانے کے بعد امریکا کی افواج کا افغانستان سے انخلاء شروع ہوگیا۔دنیا نیوز کے مطابق ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق انخلاء کے عمل کے دوران رینجر ٹاسک فورس عارضی طور پر افغانستان میں تعینات ہوگی، سینٹ کام کو ضرورت کے تحت فوج نکالنے اور تعینات کرنے کی آزادی ہے۔وائٹ ہاؤس کے مطابق پہلے مرحلے میں 100 کے لگ بھگ فوجی اور عسکری سازو سامان افغانستان سے روانہ ہوا،11ستمبر تک تمام امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جوزف بائیڈن نے فیصلہ کیا تھا کہ سابق پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے برعکس یکم مئی کو نہیں بلکہ 11 ستمبر کو اپنی افواج جنگ زدہ ملک سے واپس بلا لیں گے۔امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان فروری 2020ء کو ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق امریکا سمیت تمام غیر ملکی افواج یکم مئی 2021ء تک اپنی افواج وہاں سے نکال لیں گی۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر 11 ستمبر کو افغانستان سے مکمل انخلاء کیلئے تیار ہو گئے ہیں، جس کے لیے ابھی تک کوئی شرط نہیں رکھی جا رہی۔ اس بات کا اعلان کل کیا جائے گا، یہ فیصلہ تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لیکر کیا جائے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے یکم مئی کو نہیں بلکہ 11 ستمبر 2021ء کو اپنی افواج جنگ زدہ ملک سے واپس بلا لیں گے۔امریکی میڈیا کے مطابق اس وقت 2 ہزار 500 امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے، یہ تمام افواج صرف افغان فوج کو ٹریننگ کے لیے موجود ہیں۔ جوبائیڈن کی طرف سے 11 ستمبر کی تاریخ کا اعلان اس لیے بھی حیران کن ہے کہ 20 سال قبل نیو یارک میں ایک حملہ ہوا تھا جس کے بعد امریکا اپنی فوج لیکر افغانستان آیا تھا۔امریکی میڈیا کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء جو بائیڈن کی طرف سے ان کے دور صدارت کا پہلا بڑا فیصلہ ہے۔اس سے قبل افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کابل کے چار روزہ دورے کے بعد واشنگٹن واپس پہنچ گئے ہیں۔ اپنے دورے میں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی، افغان حکومت کی طالبان سے مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت کئی افغان سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
0 comments: